تازہ ترین
کام جاری ہے...
Wednesday, August 19, 2015

میرا نام حمید گُل ہے اور میں کبھی اپنا بیان نہیں بدلتا

3:51 AM
وجیہہ صورت اور اس صورت پر خوبصورت سدابہار مسکراہٹ، چمکتی دمکتی آنکھیں اور ان آنکھوں میں سجے پاکستان کے شاندار مستقبل کے سپنے،کھلا ہوا چہرہ ایسے جیسے موسم بہار میں گلاب  اور چوڑا سینہ جو اپنوں اور غیروں کی تنقید و تضحیق کے تیروں کی آماجگاہ بنا رہا۔
کوئی بات کرتے تو واضع اور غیر مبہم اور اپنے موقف پر ایسے کھڑے ہوتے جیسے کوہِ ہمالیہ،زمّدار ایسے کے ضیا الحق کے مخالفت کے باوجود جنیجو کو انکے خلاف ہونے والی شازش کی اطلاع دی، خودّار ایسے کے بیٹی کی ٹرانسپورٹ کمپنی کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سفارش تک نہ کی،ملنسار ایسے کے کچرا اُٹھاتے افغان بچوں سے گھل مل جاتے،سادہ ایسے کے عام سپاہیوں کے ساتھ کھانا کھاتے اور بہادر اتنے کے اکیلے بھارت کو تگنی کا ناچ نچاتے۔
 نوّے کی دہائی کے بہترین منصوبہ ساز، ایک پیشہ ور فوجی اور جانباز سپہ سالار جو نہ کبھی ڈرا نہ کبھی بکا اور نہ جھکا۔ یہ تھے جنرل ریٹائرڈ حمید گّل جو ریٹائر ہونے کے باوجود کبھی ریٹائر نہ ہوئے انکو موت نے ہفتے کی رات ریٹائر کر دیا لیکن ان کے خیالات، نظریات اور افکار شائد کبھی بھی ریٹائر نہ ہو۔
جنرل حمید گل جو اپنی زندگی میں ہی پاکستان سے محبت کا استعارہ بن چکے تھے 20 نومبر 1936 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے۔بنیادی تعلیم گاؤں کے ہی سکول میں حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔یوسف زئی قبیلے سے تعلق تھا جو سوات سے ہجرت کر کے پنجاب میں آباد ہوئے تھے۔اکتوبر 1956 میں اٹھارویں لانگ کورس کےزریعے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی۔1965 کی جنگ میں بطور کمانڈر حصّہ لیا-1968 میں کماند اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں رہے جبکہ 1972 سے 1976 تک بٹالین کمانڈر رہے۔1978 میں بہاولپور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے اور 1982 میں ملتاں ریجن کے کمانڈر۔بعدازاں 1987 میں  جرنل اختر عبدالرحمان کے بعد حمید گل کو آئی ایس آئی کا ڈئریکٹر بنایا گیا اور 1989 میں بطور کمانڈر ملتان ٹرانسفر ہوئے جہاں انہوں نے 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان آرمی کی سب سے بڑی مشقوں 'ضرب مومن'  کی کمانڈ کی۔1991 میں جنرل آصف نواز نے حمید گل کو بطور ڈرئیکٹر جنرل ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا بیجھنا چاہا لیکن حمید گل نے یہ کہہ کر ریٹائرمنٹ کو فوقیت دی کے میں آرمی میں ٹینک چلانے آیا ہوں ٹینک بنانے نہیں اور یوں انکی 35 سالہ فوج زندگی کا اختتام ہوا۔

حمید گل ریٹائر ہونے کے باوجود کبھی بھی ریٹائر نا ہوئے، انڈین دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ ریٹائر ہونے کے باوجود حاظر سروس جنرلوں سے زیادہ خطرناک تھے،کشمیر کے معاملے پر خالصتان تحریک کو ہوا دے کر حمید گل نے انڈیا کو ناکوں چنے چبوائے۔
حمید گل سچے پاکستانی کے ساتھ ساتھ اسلام کے بھی سپاہی تھے،ان کے خیال میں جمہوریت نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا اور نہ کچھ دے گی اس لیے اللہ کی زمین پر اللہ کا نطام ہونا چاہیے۔ اپنی افغان جہاد پالیسی پر وہ کبھی نادم نہ ہوئے بلکہ ہمیشہ دلائل کے ساتھ اپنے موقوف کا دفاع کیا۔افغان طالبان کے ساتھ اُن کے گہرے روابط تھے۔جہاد کو دہشتگردی سے تعبیر کرنے والوں کے وہ سخت مخالف تھے۔اپنے امریکہ مخالف نظریات کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ناپسندیدہ شخصیت تھے اور اُن کے امریکہ داخلے پر پابندی تھی۔ امریکہ نے عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں انکا نام شامل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن چائنہ کی مداخلت کی وجہ سے ایسا نا ہو سکا۔
حمید گل کے بارے میں چند اخبارات نے اسطرح تجزیہ کیا ہے
حمید گل دنیا کے خطرناک ترین جنرلز میں سے ہیں (امریکی حکومت)
حمید گل دنیا کے پانچ بڑے دماغوں میں سے ہیں (سی ائی اے)
 حمید گل اکھنڈ بھارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے (انڈین ایکسپریس)
حمید گل کی پالیسوں کی وجہ سے را کے چیف نے گھٹنے ٹیک دیے تھے (بھارتی صحافی سوشانت سنگھ)
حمید گل ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھارت کے لیے 'حاظر سروس' دشمن ثابت ہوئے۔()


آپ جنرل حمید گل کے نطریے سے اختلاف کر سکتے ہیں انکی زات سے اور خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اُنکی محب وطنی اور اسلام سے ولہانہ محبت میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ایک ایسا شخص جس سے اپ اختلاف کریں اور وہ شائستگی سے آپکے نقطہ نظر کو سنے اور پھر اختلاف رائے کو برداشت کرے،جس کے خمیر میں وطن کی محبت گوندھی ہوئی ہو اور جو پاکستان سے عشق کی مثال ہو اب وہ شخص ہم میں نہیں رہا۔۔

حمید گل کی وفات پر مختلف لوگوں کا مختلف ردعمل راہا ہے جس کا اظہار شوشل میڈیا سمیت پریس اور الیکڑانک میڈیا میں کیا گیا۔زیل میں حمید گل سے متعلق  کچھ منتخب کالم اور ویڈیوز کے لنکس ہیں۔

ٹی وی شو مزاق رات میں میں وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے کا انٹرویو۔

نہ میں ریٹائر ہوں نا میں ٹائرڈ ہوں، میں میدان جنگ میں کھڑا ہوں
اے آر وائی نیوز میں ڈاکٹر دانش کو دیا گیا آخری انٹرویو
جمہوریت نے کچھ نہیں دیا، اللہ کی زمیں پر اللہ کا نظام ہونا چاہیے۔ 

حمید گل مرحوم کا اپنے بارے میں تعارفی کالم
لوگ مجھے حمید گل کے نام سے جانتے ہیں۔
حامد میر کا حمید گل کی وفات پر کالم
جنرل حمید گل کی کچھ حسین یادیں۔
جاوید چودھری کا حمید گل کی وفات پر کالم-
جنرل صاھب وہ پاکستان نہ دیکھ سکے۔ 
سلیم صحافی کا حمید گل کی وفات پر کالم-
جنرل حمید گل-
نزیر ناجی کا حمید گل کی وفات پر کالم-
ایک جنرل ایک مدبر۔
اوریا مقبول جان کا حمید گل کی وفات پر کالم-
گل صاھب۔
ارشاد احمد عارف کا حمید گل کی وفات پر کالم-
خوابوں کا بنجارہ۔
حفیظ للہ نیازی کا حمید گل کی وفات پر کالم-
قوم چند بڑے لوگوں سے محروم۔  
ہارون رشید کا حمید گل کی وفات پر کالم-
جرنل صاھب۔ 
انصار عباسی کا حمید گل کی وفات پر کالم-
حمید گل اسلام کا سپاہی۔   
عامر خاکوانی کا حمید گل کی وفات پر کالم-
افغانستان سے جڑی کتاب کا ورق۔
خورشید ندیم  کا حمید گل کی وفات پر کالم-
ایک نجیب آدمی۔  
آصف محمود کا حمید گل کی وفات پر کالم-
جنرل حمید گل۔


0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں