تازہ ترین
کام جاری ہے...
Tuesday, July 10, 2018

شہاب نامہ

4:26 AM

شہاب نامہ کا نام بچپن سے سنتے آئے تھے، آج پڑھ کے بھی دیکھ لی۔ جیسا سنا تھا اْس سے بڑھ کر پایا۔قدرت اللہ شہاب کا طرز تحریر انتہائی منفرد اور آسان ہے، ہم تو یا خدا پڑھ کر اْن کے دیوانے ہوئے تھے۔ مشکل سے مشکل بات آسانی سے بیان کرتے ہیں۔جموں میں پلیگ کے دوران لوگ چوہوں سے بھاگتے ہیں جبکہ موصوف چوہوں کو دموں سے پکڑ کے اِدھر اْدھر اْچھالتے ہیں، لوگ طاعون زدہ کے پاس تک نہیں پٹھکتے اور یہ موصوف صادقہ بیگم کے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ بچپن میں سکول سے بھاگتے ہیں، گھر جھوٹ بولتےہیں، کتابوں کے رسیا ہیں اور دادی سے کہانیاں سنتے ہیں اور مزار سے پیسے چراتے ہیں۔ غرض قدرت اللہ کا بچپن ایک روایتی بچے کا بچپن ہے۔لڑکپن میں ایک محبت کرتے ہیں گویا لڑکپن بھی روایتی ہے! البتہ جوانی سے زندگی کا رخ متعین ہوتا ہے کے آئی سی ایس میں شامل ہو جاتے ہیں۔
شروع سے ہی یہ کتاب آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور تب تک نہیں چھوڑتی جب تک آپ اسے ختم نہ کر دیں، بلکہ میں تو کتاب ختم ہونے کے بعد تادم تحریر شہاب نامہ کے سحر میں گرفتار ہوں۔
جوں جوں آپ پڑھتے جاتے ہیں توں توں دلچسبی میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، ایک سے بڑھ کر ایک حیرت انگیز واقعہ ہر دوسرے صفحے پر آپکی راہ دیکھ راہا ہوتا ہے چاہے وہ سول لائنز کی ویران کوٹھی ہو یا مہاراجہ کشمیر سے ملاقات، مقدس مٹکا ہو یا درود شریف کی برکت، کشمیر میں اپنے افسروں سے تلخ کلامی ہو یا ریل گاڑی میں راشٹریہ سوایم سیوک سنگ کے کر کرتا دھرتا اندر کمار سے ملاقات، نندہ بس سروس ہو یا اورنگ آباد، ڈپٹی کمیشنر کی ڈائری ہو یا "یا خدا" کی کہانی، چندراواتی کی محبت ہو یا ہندو بنیے کی مکاری، اقتدار کی غلام گردشیں ہوں یا صاحبان اقتدار کی عیاریاں، نوکر شاہی کی چلاکیاں ہوں یا پاکستانی فوج کی مکّاریاں، دشمنوں کی سازش ہو یا دوستوں کی چشم پوشیاں، ممالک کے آپسی تعلقات ہوں یا داخلی بحران، صدور، وزرائے اعظم کے واقعات ہوں یا آپ بیتیاں ، جاگیر کے کاروباری ہوں یا مزہب کے بیوپاری یہ کتاب آپ کو ہر ایک کے اندر چھپے شخص سے واقف کراتی ہے، ہر پردے کو چاق کرتی ہے ہر کردار کو سامنے لاتی ہے۔
شہاب نامہ پڑھ کر ہمیں خوشی بھی ہوتی ہے اور غم بھی، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو ہنساتی بھی ہے اور رولاتی بھی ، پاکستان بننے کو یہ واقعاتی طور سے بھی دکھلاتی ہے اور نطریاتی طور پر بھی، اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ میرا خیال جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی اردو ادب میں اْس نے کچھ بھی نہیں پڑھا۔


0 تبصرے:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں